Hidden Islam? قرآن اوجھل ۔۔ کیوں اور کیسے؟۔

قرآن اوجھل۔۔۔۔۔  کیوں اور کیسے!!۔

معجزانہ نظام
ایک تحریک علمبردار ہونی چاہیے اس معجزانہ آئینی  نظام مملکت کی، جو قرآن سے ماخوذ ہے، فول پروف اور ناقابل موازنہ ہے، کسی  بھی بدحال مملکت کو راتوں رات تمام مسائل سے پاک ایک مکمل ٹیکس فری اور جنت نظیر فلاحی ریاست بنا دینے کی ضمانت دیتا ہے، کسی اخلاقی سہارے، کسی تبلیغ و خلوص نیت کا محتاج نہیں ہے اور شاید ہزار سال کے دوران کبھی بھی انسانیت کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔ یہ بظاہر ناقابل یقین نظام مملکت نہ تو سوشلزم اور کمیونزم کے جبر کا کوئی شائبہ رکھتا ہے اور نہ ہی کیپیٹل ازم کا زہر اپنے اندر سموئے ہوئے ہے، بلکہ یہ تو لامحدود آزادی کا مظہر ہے۔ وہ آزادی جس کی موجودہ دنیا کے سب سے بہتر معاشرے میں بھی کوئی مثال موجود نہیں۔ اس نظام میں اس تمام فساد کا حل بھی موجود ہے جو جمہوریت میں احمق، بے شعور یا مجبور اور زیر دست ووٹرز کے ووٹوں کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔

ڈاؤن لوڈ کیلئے دستیاب ہے
یہ نظام قرآن2000 کے نام سے پی ڈی ایف فائلز کی صورت میں ڈاؤن لوڈ کے لیے دستیاب ہے۔

ہم جواب سے گریزاں کیوں رہے؟
اس دستاویز میں ان تمام سوالات کا پہلی دفعہ منطقی اور شافی جواب دیا گیا ہے جو سلمان رشدی اور متعدد مستشرقین اسلام کے آئینی نظام، اسلامی حدود و قوانین پر کرتے ہیں اور جن کا جواب دینے سے ہمارا علمی ذخیرہ گریزاں ہے، اس کی وجہ بظاہر تو یہی ہے کہ اکثر اہل علم میں اجتہاد کی آرزو ان کی عالی مرتبت ہونے کی خواہش نے کچل ڈالی ہے جبکہ سورہ قصص کی آیت نمبر پچاسی کے مطابق حتمی کامیابی صرف ان کیلئے ہے جو عالی مرتبت ہونے کا ارادہ نہیں کرتے۔
یاد رہے کہ یہ تحریر گزشتہ کئی ہفتوں سے متعدد اہل علم کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے تاہم ابھی تک کسی کی طرف سے اس کا محاکمہ اور اس کی مدلل تائید یا تردید کا برملا اظہار سامنے نہیں آیا۔

منزل مقصود
 اس بلاگ کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے معاشرے کے مختلف پہلوؤں کے حوالے سے اس نظام کا وہ منظر پیش کیا جائے جس کی تلاش میں سسکتی بلکتی انسانیت اپنے مسائل سے حقیقی نجات، اپنی حتمی آزادی کیلئے سرگرداں ہے لیکن یہ سمجھ نہیں پا رہی کہ اگر اسے آزادی مل جائے تو وہ کیا نظام اپنائے جس سے اسے دوبارہ ان مسائل کا شکار نہ ہونا پڑے۔
اس مقصد کیلئے طریق کار یہ طے کیا گیا ہے کہ بلاگ کی ہر پوسٹ میں حالات حاضرہ کے تناظر میں کسی اہم خبر پر اسی دستاویز کی روشنی میں مسئلے کا وہ حل پیش کیا جائے جو نہ صرف حتمی ہو گا بلکہ قرآن کے اس چیلنج کا علمبردار ہو گا کہ اس سے بہتر حل پیش کرنا ہی ممکن نہیں ہے خواہ وہ مخالف اپنے سارے حمایتی ہی کیوں نہ اکٹھے کر لیں۔
یقین کیا جا سکتا ہے کہ اب انسانیت پر کیمونزم اور کیپیٹل ازم کی زنجیروں کی جکڑ بندی اور غلامی کے دن تھوڑے ہیں۔ یہ بھی یقین کیا جا سکتا ہے کہ اب جبکہ منزل کا تعین ہو گیا ہے، قدرت جلد ہی کوئی راہبر، کوئی قائد بھی انسانیت کو عطا کرے گی اور یہ بھی یقین کیا جانا چاہیے کہ یہ راہبر و قائد خواہ کوئی فرد ہو یا ادارہ، جب منزل کی طرف انسانیت کو ہمراہ لے کر عازم سفر ہو گا تو مجدد کے رتبے کا حامل ہو گا اور تب یہ زمین و آسمان ’’یدخلون فی دین اللہ افواجا‘‘ یعنی اس دین میں انسانیت کے فوج در فوج داخل ہونے کا منظر دیکھیں گے۔
ہے کوئی۔۔۔؟  جس میں مجدد کا سا درد اور حوصلہ ہو؟؟۔